Wasi Shah Ghazal in Urdu
وصی شاہ ایک بین الاقوامی معروف اردو شاعر ہیں جو اپنی خصوصیاتی انداز میں غزلوں کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا چکے ہیں۔ ان کی غزلیں محبت، زندگی کے مختلف پہلوؤں اور انسانی جذبات کو چھونے والی ہیں۔ وصی شاہ کی شاعری میں ایک خاص تاثر ہے جو سنگیتی انداز اور خوبصورت الفاظ کا استعمال کرتے ہیں۔ ان کی غزلوں میں شاعری کا جذبہ ہوتا ہے جو محنت اور انسانی زندگی کا حسین تصور پیش کرتا ہے۔ وصی شاہ کی غز لیں اردو شاعری میں لطافت اور عمق کا خوبصور ت مزاج رکھتی ہیں۔
اداس راتوں میں تیز کافی کی تلخیوں میں
اداس راتوں میں تیز کافی کی تلخیوں میں
وہ کچھ زیادہ ہی یاد آتا ہے سردیوں میں
مجھے اجازت نہیں ہے اس کو پکارنے کی
جو گونجتا ہے لہو میں سینے کی دھڑکنوں میں
وہ بچپنا جو اداس راہوں میں کھو گیا تھا
میں ڈھونڈتا ہوں اسے تمہاری شرارتوں میں
اسے دلاسے تو دے رہا ہوں مگر یہ سچ ہے
کہیں کوئی خوف بڑھ رہا ہے تسلیوں میں
تم اپنی پوروں سے جانے کیا لکھ گئے تھے جاناں
چراغ روشن ہیں اب بھی میری ہتھیلیوں میں
جو تو نہیں ہے تو یہ مکمل نہ ہو سکیں گی
تری یہی اہمیت ہے میری کہانیوں میں
مجھے یقیں ہے وہ تھام لے گا بھرم رکھے گا
یہ مان ہے تو دیے جلائے ہیں آندھیوں میں
ہر ایک موسم میں روشنی سی بکھیرتے ہیں
تمہارے غم کے چراغ میری اداسیوں میں
💖🎉💖🎉💖🎉——🎉❤🎉❤🎉❤
مری وفا نے کھلائے تھے جو گلاب سارے جھلس گئے ہیں
مری وفا نے کھلائے تھے جو گلاب سارے جھلس گئے ہیں
تمہاری آنکھوں میں جس قدر تھے وہ خواب سارے جھلس گئے ہیں
مری زمیں کو کسی نئے حادثے کا ہے انتظار شاید
گناہ پھلنے لگے ہیں اجر و ثواب سارے جھلس گئے ہیں
جو تم گئے تو مری نظر پہ حقیقتوں کے عذاب اترے
یہ سوچتا ہوں کہ کیا کروں گا سراب سارے جھلس گئے ہیں
یہ معجزہ صرف ایک شب کی مسافتوں کے سبب ہوا ہے
تمہارے اور میرے درمیاں کے حجاب سارے جھلس گئے ہیں
اسے بتانا کہ اس کی یادوں کے سارے صفحے جلا چکا ہوں
کتاب دل میں رقم تھے جتنے وہ باب سارے جھلس گئے ہیں
نظر اٹھاؤں میں جس طرف بھی مہیب سائے ہیں ظلمتوں کے
یہ کیا کہ میرے نصیب کے ماہتاب سارے جھلس گئے ہیں
تمہاری نظروں کی یہ تپش ہے کہ میرے لفظوں پہ آبلے ہیں
سوال سارے جھلس گئے ہیں جواب سارے جھلس گئے ہیں
یہ آگ خاموشیوں کی کیسی تمہاری آنکھوں میں تیرتی ہے
تمہارے ہونٹوں پہ درج تھے جو نصاب سارے جھلس گئے ہیں
💖🎉💖🎉💖🎉——🎉❤🎉❤🎉❤
You can also visit Quotes in Urdu
میری محفل تھا مری خلوت جاں تھا کیا تھا
میری محفل تھا مری خلوت جاں تھا کیا تھا
وہ عجب شخص تھا اک راز نہاں تھا کیا تھا
بال کھولے ہوئے پھرتی تھیں حسینائیں کچھ
وصل تھا یا کہ جدائی کا سماں تھا کیا تھا
ہائے اس شوخ کے کھل پائے نہ اسرار کبھی
جانے وہ شخص یقیں تھا کہ گماں تھا کیا تھا
تم جسے مرکزی کردار سمجھ بیٹھے ہو
وہ فسانے میں اگر تھا تو کہاں تھا کیا تھا
کیوں وصیؔ شاہ پہ پری زادیاں جاں دیتی ہیں
ماہ کنعان تھا شاعر تھا جواں تھا کیا تھا
💖🎉💖🎉💖🎉——🎉❤🎉❤🎉❤
میرے اس دیدۂ خوں ناب کے پیچھے پیچھے
میرے اس دیدۂ خوں ناب کے پیچھے پیچھے
ایک بے خوابی ہے اس خواب کے پیچھے پیچھے
عمر بھر چین نہیں پاتے ہیں وہ لوگ کہ جو
بھاگتے رہتے ہیں اسباب کے پیچھے پیچھے
دل بھی اشکوں کے تعاقب میں بہا جاتا ہے
ایک صحرا سا ہے سیلاب کے پیچھے پیچھے
کچھ تو تا عمر رہے کسب ہنر میں مصروف
اور کچھ تمغہ و القاب کے پیچھے پیچھے
جس کی تکمیل پہ آنکھیں بھی گئیں دل بھی گیا
عمر گزری تھی اسی خواب کے پیچھے پیچھے
ان پہ زنداں کی فصیلوں کو بھی پیار آتا ہے
جو چلے آتے ہیں احباب کے پیچھے پیچھے
ہم تو اس درجہ ترے نام کے دیوانے ہیں
جیسے دوڑے کوئی سرخاب کے پیچھے پیچھے
💖🎉💖🎉💖🎉——🎉❤🎉❤🎉❤
apne ehsās se chhū kar mujhe sandal kar do
apne ehsās se chhū kar mujhe sandal kar do
maiñ ki sadiyoñ se adhūrā huuñ mukammal kar do
na tumheñ hosh rahe aur na mujhe hosh rahe
is qadar TuuT ke chāho mujhe pāgal kar do
tum hathelī ko mire pyaar kī mehñdī se rañgo
apnī āñkhoñ meñ mire naam kā kājal kar do
is ke saaye meñ mire ḳhvāb dahak uTTheñge
mere chehre pe chamaktā huā āñchal kar do
dhuup hī dhuup huuñ maiñ TuuT ke barso mujh par
is qadar barso mirī ruuh meñ jal-thal kar do
jaise sahrāoñ meñ har shaam havā chaltī hai
is tarah mujh meñ chalo aur mujhe jal-thal kar do
tum chhupā lo mirā dil oT meñ apne dil kī
aur mujhe merī nigāhoñ se bhī ojhal kar do
mas.ala huuñ to nigāheñ na churāo mujh se
apnī chāhat se tavajjoh se mujhe hal kar do
apne ġham se kaho har vaqt mire saath rahe
ek ehsān karo is ko musalsal kar do
mujh pe chhā jaao kisī aag kī sūrat jānāñ
aur mirī zaat ko sūkhā huā jañgal kar do
💖🎉💖🎉💖🎉——🎉❤🎉❤🎉❤
اپنے احساس سے چھو کر مجھے صندل کر دو
اپنے احساس سے چھو کر مجھے صندل کر دو
میں کہ صدیوں سے ادھورا ہوں مکمل کر دو
نہ تمہیں ہوش رہے اور نہ مجھے ہوش رہے
اس قدر ٹوٹ کے چاہو مجھے پاگل کر دو
تم ہتھیلی کو مرے پیار کی مہندی سے رنگو
اپنی آنکھوں میں مرے نام کا کاجل کر دو
اس کے سائے میں مرے خواب دہک اٹھیں گے
میرے چہرے پہ چمکتا ہوا آنچل کر دو
دھوپ ہی دھوپ ہوں میں ٹوٹ کے برسو مجھ پر
اس قدر برسو مری روح میں جل تھل کر دو
جیسے صحراؤں میں ہر شام ہوا چلتی ہے
اس طرح مجھ میں چلو اور مجھے جل تھل کر دو
تم چھپا لو مرا دل اوٹ میں اپنے دل کی
اور مجھے میری نگاہوں سے بھی اوجھل کر دو
مسئلہ ہوں تو نگاہیں نہ چراؤ مجھ سے
اپنی چاہت سے توجہ سے مجھے حل کر دو
اپنے غم سے کہو ہر وقت مرے ساتھ رہے
ایک احسان کرو اس کو مسلسل کر دو
مجھ پہ چھا جاؤ کسی آگ کی صورت جاناں
اور مری ذات کو سوکھا ہوا جنگل کر دو
💖🎉💖🎉💖🎉——🎉❤🎉❤🎉❤
سمندر میں اترتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
سمندر میں اترتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
تری آنکھوں کو پڑھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
تمہارا نام لکھنے کی اجازت چھن گئی جب سے
کوئی بھی لفظ لکھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
تری یادوں کی خوشبو کھڑکیوں میں رقص کرتی ہے
ترے غم میں سلگتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
نہ جانے ہو گیا ہوں اس قدر حساس میں کب سے
کسی سے بات کرتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
میں سارا دن بہت مصروف رہتا ہوں مگر جوں ہی
قدم چوکھٹ پہ رکھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
ہر اک مفلس کے ماتھے پر الم کی داستانیں ہیں
کوئی چہرہ بھی پڑھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
بڑے لوگوں کے اونچے بد نما اور سرد محلوں کو
غریب آنکھوں سے تکتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
ترے کوچے سے اب میرا تعلق واجبی سا ہے
مگر جب بھی گزرتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
ہزاروں موسموں کی حکمرانی ہے مرے دل پر
وصیؔ میں جب بھی ہنستا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
💖🎉💖🎉💖🎉——🎉❤🎉❤🎉❤
samandar mein utartaa hon to ankhen bhiig jati hain
samandar mein utartaa hon to ankhen bhiig jati hain
teri aankhon ko parhta hon to ankhen bhiig jati hain
tumhara naam likhnay ki ijazat chhin gayi jab se
koi bhi lafz likhta hon to ankhen bhiig jati hain
teri yaado ki khushbu khirkion mein raqs karti hai
tere gham mein sulagta hon to ankhen bhiig jati hain
najane ho gaya hon is qader hassas mein kab se
kisi se baat karta hon to ankhen bhiig jati hain
mein sara din bohat masroof rehta hon magar jon hi
qadam chokhat pay rakhta hon to ankhen bhiig jati hain
har ik muflis ke maathey par alum ki dastaneen hain
koi chehra bhi parhta hon to ankhen bhiig jati hain
barray logon ke ounchay bad numa aur sard mehloon ko
ghareeb aankhon se taktaa hon to ankhen bhiig jati hain
tere koochy se ab mera talluq wajibi sa hai
magar jab bhi guzarta hon to ankhen bhiig jati hain
hazaron mousamoo ki hukmarani hai marey dil par
Wasi mein jab bhi hanstaa hon to ankhen bhiig jati hain
💖🎉💖🎉💖🎉——🎉❤🎉❤🎉❤
آنکھوں سے مری اس لیے لالی نہیں جاتی
آنکھوں سے مری اس لیے لالی نہیں جاتی
یادوں سے کوئی رات جو خالی نہیں جاتی
اب عمر نہ موسم نہ وہ رستے کہ وہ پلٹے
اس دل کی مگر خام خیالی نہیں جاتی
مانگے تو اگر جان بھی ہنس کے تجھے دے دیں
تیری تو کوئی بات بھی ٹالی نہیں جاتی
آئے کوئی آ کر یہ ترے درد سنبھالے
ہم سے تو یہ جاگیر سنبھالی نہیں جاتی
معلوم ہمیں بھی ہیں بہت سے ترے قصے
پر بات تری ہم سے اچھالی نہیں جاتی
ہم راہ ترے پھول کھلاتی تھی جو دل میں
اب شام وہی درد سے خالی نہیں جاتی
ہم جان سے جائیں گے تبھی بات بنے گی
تم سے تو کوئی راہ نکالی نہیں جاتی
💖🎉💖🎉💖🎉——🎉❤🎉❤🎉❤
سوچتا ہوں کہ اسے نیند بھی آتی ہوگی
سوچتا ہوں کہ اسے نیند بھی آتی ہوگی
یا مری طرح فقط اشک بہاتی ہوگی
وہ مری شکل مرا نام بھلانے والی
اپنی تصویر سے کیا آنکھ ملاتی ہوگی
اس زمیں پر بھی ہے سیلاب مرے اشکوں سے
میرے ماتم کی صدا عرش ہلاتی ہوگی
شام ہوتے ہی وہ چوکھٹ پہ جلا کر شمعیں
اپنی پلکوں پہ کئی خواب سلاتی ہوگی
اس نے سلوا بھی لیے ہوں گے سیہ رنگ لباس
اب محرم کی طرح عید مناتی ہوگی
میرے تاریک زمانوں سے نکلنے والی
روشنی تجھ کو مری یاد دلاتی ہوگی
روپ دے کر مجھے اس میں کسی شہزادے کا
اپنے بچوں کو کہانی وہ سناتی ہوگی
💖🎉💖🎉💖🎉——🎉❤🎉❤🎉❤
اس کی آنکھوں میں محبت کا ستارہ ہوگا
اس کی آنکھوں میں محبت کا ستارہ ہوگا
ایک دن آئے گا وہ شخص ہمارا ہوگا
زندگی اب کے مرا نام نہ شامل کرنا
گر یہ طے ہے کہ یہی کھیل دوبارہ ہوگا
جس کے ہونے سے مری سانس چلا کرتی تھی
کس طرح اس کے بغیر اپنا گزارہ ہوگا
عشق کرنا ہے تو دن رات اسے سوچنا ہے
اور کچھ ذہن میں آیا تو خسارہ ہوگا
کون روتا ہے یہاں رات کے سناٹوں میں
میرے جیسا ہی کوئی ہجر کا مارا ہوگا
جو مری روح میں بادل سے گرجتے ہیں وصیؔ
اس نے سینے میں کوئی درد اتارا ہوگا
کام مشکل ہے مگر جیت ہی لوں گا اس کو
میرے مولا کا وصیؔ جوں ہی اشارہ ہوگا
💖🎉💖🎉💖🎉——🎉❤🎉❤🎉❤
تم مری آنکھ کے تیور نہ بھلا پاؤ گے
تم مری آنکھ کے تیور نہ بھلا پاؤ گے
ان کہی بات کو سمجھوگے تو یاد آؤں گا
ہم نے خوشیوں کی طرح دکھ بھی اکٹھے دیکھے
صفحۂ زیست کو پلٹو گے تو یاد آؤں گا
اس جدائی میں تم اندر سے بکھر جاؤ گے
کسی معذور کو دیکھو گے تو یاد آؤں گا
اسی انداز میں ہوتے تھے مخاطب مجھ سے
خط کسی اور کو لکھو گے تو یاد آؤں گا
میری خوشبو تمہیں کھولے گی گلابوں کی طرح
تم اگر خود سے نہ بولو گے تو یاد آؤں گا
آج تو محفل یاراں پہ ہو مغرور بہت
جب کبھی ٹوٹ کے بکھرو گے تو یاد آؤں گا
💖🎉💖🎉💖🎉——🎉❤🎉❤🎉❤
گنگناتے ہوئے آنچل کی ہوا دے مجھ کو
گنگناتے ہوئے آنچل کی ہوا دے مجھ کو
انگلیاں پھیر کے بالوں میں سلا دے مجھ کو
جس طرح فالتو گلدان پڑے رہتے ہیں
اپنے گھر کے کسی کونے سے لگا دے مجھ کو
یاد کر کے مجھے تکلیف ہی ہوتی ہوگی
ایک قصہ ہوں پرانا سا بھلا دے مجھ کو
ڈوبتے ڈوبتے آواز تری سن جاؤں
آخری بار تو ساحل سے صدا دے مجھ کو
میں ترے ہجر میں چپ چاپ نہ مر جاؤں کہیں
میں ہوں سکتے میں کبھی آ کے رلا دے مجھ کو
دیکھ میں ہو گیا بدنام کتابوں کی طرح
میری تشہیر نہ کر اب تو جلا دے مجھ کو
روٹھنا تیرا مری جان لیے جاتا ہے
ایسے ناراض نہ ہو ہنس کے دکھا دے مجھ کو
اور کچھ بھی نہیں مانگا مرے مالک تجھ سے
اس کی گلیوں میں پڑی خاک بنا دے مجھ کو
لوگ کہتے ہیں کہ یہ عشق نگل جاتا ہے
میں بھی اس عشق میں آیا ہوں دعا دے مجھ کو
یہی اوقات ہے میری ترے جیون میں کہ میں
کوئی کمزور سا لمحہ ہوں بھلا دے مجھ کو
💖🎉💖🎉💖🎉——🎉❤🎉❤🎉❤
دکھ درد میں ہمیشہ نکالے تمہارے خط
دکھ درد میں ہمیشہ نکالے تمہارے خط
اور مل گئی خوشی تو اچھالے تمہارے خط
سب چوڑیاں تمہاری سمندر کو سونپ دیں
اور کر دیے ہوا کے حوالے تمہارے خط
میرے لہو میں گونج رہا ہے ہر ایک لفظ
میں نے رگوں کے دشت میں پالے تمہارے خط
یوں تو ہیں بے شمار وفا کی نشانیاں
لیکن ہر ایک شے سے نرالے تمہارے خط
جیسے ہو عمر بھر کا اثاثہ غریب کا
کچھ اس طرح سے میں نے سنبھالے تمہارے خط
اہل ہنر کو مجھ پہ وصیؔ اعتراض ہے
میں نے جو اپنے شعر میں ڈھالے تمہارے خط
پروا مجھے نہیں ہے کسی چاند کی وصیؔ
ظلمت کے دشت میں ہیں اجالے تمہارے خط
💖🎉💖🎉💖🎉——🎉❤🎉❤🎉❤
بارہا تجھ سے کہا تھا مجھے اپنا نہ بنا
بارہا تجھ سے کہا تھا مجھے اپنا نہ بنا
اب مجھے چھوڑ کے دنیا میں تماشہ نہ بنا
اک یہی دکھ مرے مرنے کے لیے کافی ہے
جیسا تو چاہتا تھا مجھ کو میں ویسا نہ بنا
ایک بات اور پتے کی میں بتاؤں تجھ کو
آخرت بنتی چلی جائے گی دنیا نہ بنا
جان سے جائیں گے ہم دونوں ہی تو بھی میں بھی
میں تو کہتا تھا میری جاں مجھے اپنا نہ بنا
یہ خدا بن کے رعایت نہیں کرتے ہیں وصیؔ
حسن والوں کو کبھی قبلہ و کعبہ نہ بنا
💖🎉💖🎉💖🎉——🎉❤🎉❤🎉❤
یہ جو چہرے سے تمہیں لگتے ہیں بیمار سے ہم
یہ جو چہرے سے تمہیں لگتے ہیں بیمار سے ہم
خوب روئے ہیں لپٹ کر در و دیوار سے ہم
یار کی آنکھ میں نفرت نے ہمیں مار دیا
مرنے والے تھے کہاں یار کی تلوار سے ہم
عشق میں حکم عدولی بھی ہمیں آتی ہے
ٹلنے والے تو نہیں ہیں ترے انکار سے ہم
رنج ہر رنگ کے جھولی میں بھرے ہیں ہم نے
جب بھی گزرے ہیں کسی درد کے بازار سے ہم
بادشاہ شاعر و مجنوں سبھی آتے ہیں یہاں
لگ کے بیٹھے ہیں وصیؔ شاہ کے دربار سے ہم
💖🎉💖🎉💖🎉——🎉❤🎉❤🎉❤
ترے گلے میں جو بانہوں کو ڈال رکھتے ہیں
ترے گلے میں جو بانہوں کو ڈال رکھتے ہیں
تجھے منانے کا کیسا کمال رکھتے ہیں
تجھے خبر ہے تجھے سوچنے کی خاطر ہم
بہت سے کام مقدر پہ ٹال رکھتے ہیں
کوئی بھی فیصلہ ہم سوچ کر نہیں کرتے
تمہارے نام کا سکہ اچھال رکھتے ہیں
تمہارے بعد یہ عادت سی ہو گئی اپنی
بکھرتے سوکھتے پتے سنبھال رکھتے ہیں
خوشی سی ملتی ہے خود کو اذیتیں دے کر
سو جان بوجھ کے دل کو نڈھال رکھتے ہیں
کبھی کبھی وہ مجھے ہنس کے دیکھ لیتے ہیں
کبھی کبھی مرا بے حد خیال رکھتے ہیں
تمہارے ہجر میں یہ حال ہو گیا اپنا
کسی کا خط ہو اسے بھی سنبھال رکھتے ہیں
خوشی ملے تو ترے بعد خوش نہیں ہوتے
ہم اپنی آنکھ میں ہر دم ملال رکھتے ہیں
زمانے بھر سے بچا کر وہ اپنے آنچل میں
مرے وجود کے ٹکڑے سنبھال رکھتے ہیں
کچھ اس لیے بھی تو بے حال ہو گئے ہم لوگ
تمہاری یاد کا بے حد خیال رکھتے ہیں
💖🎉💖🎉💖🎉——🎉❤🎉❤🎉❤
تو میں بھی خوش ہوں کوئی اس سے جا کے کہہ دینا
تو میں بھی خوش ہوں کوئی اس سے جا کے کہہ دینا
اگر وہ خوش ہے مجھے بے قرار کرتے ہوئے
تمہیں خبر ہی نہیں ہے کہ کوئی ٹوٹ گیا
محبتوں کو بہت پائیدار کرتے ہوئے
میں مسکراتا ہوا آئنے میں ابھروں گا
وہ رو پڑے گی اچانک سنگھار کرتے ہوئے
مجھے خبر تھی کہ اب لوٹ کر نہ آؤں گا
سو تجھ کو یاد کیا دل پہ وار کرتے ہوئے
یہ کہہ رہی تھی سمندر نہیں یہ آنکھیں ہیں
میں ان میں ڈوب گیا اعتبار کرتے ہوئے
بھنور جو مجھ میں پڑے ہیں وہ میں ہی جانتا ہوں
تمہارے ہجر کے دریا کو پار کرتے ہوئے
💖🎉💖🎉💖🎉——🎉❤🎉❤🎉❤
اب جو لوٹے ہو اتنے سالوں میں
اب جو لوٹے ہو اتنے سالوں میں
دھوپ اتری ہوئی ہے بالوں میں
تم مری آنکھ کے سمندر میں
تم مری روح کے اجالوں میں
پھول ہی پھول کھل اٹھے مجھ میں
کون آیا مرے خیالوں میں
میں نے جی بھر کے تجھ کو دیکھ لیا
تجھ کو الجھا کے کچھ سوالوں میں
میری خوشیوں کی کائنات بھی تو
تو ہی دکھ درد کے حوالوں میں
جب ترا دوستوں میں ذکر آئے
ٹیس اٹھتی ہے دل کے چھالوں میں
تم سے آباد ہے یہ تنہائی
تم ہی روشن ہو گھر کے جالوں میں
سانولی شام کی طرح ہے وہ
وہ نہ گوروں میں ہے نہ کالوں میں
کیا اسے یاد آ رہا ہوں وصیؔ
رنگ ابھرے ہیں اس کے گالوں میں
💖🎉💖🎉💖🎉——🎉❤🎉❤🎉❤
ابھی تو عشق میں ایسا بھی حال ہونا ہے
ابھی تو عشق میں ایسا بھی حال ہونا ہے
کہ اشک روکنا تم سے محال ہونا ہے
ہر ایک لب پہ ہے میری وفا کے افسانے
ترے ستم کو ابھی لا زوال ہونا ہے
بجا کہ خواب ہیں لیکن بہار کی رت میں
یہ طے ہے اب کے ہمیں بھی نہال ہونا ہے
تمہیں خبر ہی نہیں تم تو لوٹ جاؤ گے
تمہارے ہجر میں لمحہ بھی سال ہونا ہے
ہماری روح پہ جب بھی عذاب اتریں گے
تمہاری یاد کو اس دل کو ڈھال ہونا ہے
کبھی تو روئے گا وہ بھی کسی کی بانہوں میں
کبھی تو اس کی ہنسی کو زوال ہونا ہے
ملیں گی ہم کو بھی اپنے نصیب کی خوشیاں
بس انتظار ہے کب یہ کمال ہونا ہے
ہر ایک شخص چلے گا ہماری راہوں پر
محبتوں میں ہمیں وہ مثال ہونا ہے
زمانہ جس کے خم و پیچ میں الجھ جائے
ہماری ذات کو ایسا سوال ہونا ہے
وصیؔ یقین ہے مجھ کو وہ لوٹ آئے گا
اسے بھی اپنے کئے کا ملال ہونا ہے
💖🎉💖🎉💖🎉——🎉❤🎉❤🎉❤
آنکھوں میں چبھ گئیں تری یادوں کی کرچیاں
آنکھوں میں چبھ گئیں تری یادوں کی کرچیاں
کاندھوں پہ غم کی شال ہے اور چاند رات ہے
دل توڑ کے خموش نظاروں کا کیا ملا
شبنم کا یہ سوال ہے اور چاند رات ہے
کیمپس کی نہر پر ہے ترا ہاتھ ہاتھ میں
موسم بھی لا زوال ہے اور چاند رات ہے
ہر اک کلی نے اوڑھ لیا ماتمی لباس
ہر پھول پر ملال ہے اور چاند رات ہے
چھلکا سا پڑ رہا ہے وصیؔ وحشتوں کا رنگ
ہر چیز پہ زوال ہے اور چاند رات ہے
💖🎉💖🎉💖🎉——🎉❤🎉❤🎉❤
دل کی چوکھٹ پہ جو اک دیپ جلا رکھا ہے
دل کی چوکھٹ پہ جو اک دیپ جلا رکھا ہے
تیرے لوٹ آنے کا امکان سجا رکھا ہے
سانس تک بھی نہیں لیتے ہیں تجھے سوچتے وقت
ہم نے اس کام کو بھی کل پہ اٹھا رکھا ہے
روٹھ جاتے ہو تو کچھ اور حسیں لگتے ہو
ہم نے یہ سوچ کے ہی تم کو خفا رکھا ہے
تم جسے روتا ہوا چھوڑ گئے تھے اک دن
ہم نے اس شام کو سینے سے لگا رکھا ہے
چین لینے نہیں دیتا یہ کسی طور مجھے
تیری یادوں نے جو طوفان اٹھا رکھا ہے
جانے والے نے کہا تھا کہ وہ لوٹے گا ضرور
اک اسی آس پہ دروازہ کھلا رکھا ہے
تیرے جانے سے جو اک دھول اٹھی تھی غم کی
ہم نے اس دھول کو آنکھوں میں بسا رکھا ہے
مجھ کو کل شام سے وہ یاد بہت آنے لگا
دل نے مدت سے جو اک شخص بھلا رکھا ہے
آخری بار جو آیا تھا مرے نام وصیؔ
میں نے اس خط کو کلیجے سے لگا رکھا ہے
💖🎉💖🎉💖🎉——🎉❤🎉❤🎉❤
ہزاروں دکھ پڑیں سہنا محبت مر نہیں سکتی
ہزاروں دکھ پڑیں سہنا محبت مر نہیں سکتی
ہے تم سے بس یہی کہنا محبت مر نہیں سکتی
ترا ہر بار میرے خط کو پڑھنا اور رو دینا
مرا ہر بار لکھ دینا محبت مر نہیں سکتی
کیا تھا ہم نے کیمپس کی ندی پر اک حسیں وعدہ
بھلے ہم کو پڑے مرنا محبت مر نہیں سکتی
پرانے عہد کو جب زندہ کرنے کا خیال آئے
مجھے بس اتنا لکھ دینا محبت مر نہیں سکتی
وہ تیرا ہجر کی شب فون رکھنے سے ذرا پہلے
بہت روتے ہوئے کہنا محبت مر نہیں سکتی
گئے لمحات فرصت کے کہاں سے ڈھونڈ کر لاؤں
وہ پہروں ہاتھ پر لکھنا محبت مر نہیں سکتی
💖🎉💖🎉💖🎉——🎉❤🎉❤🎉❤
ترے فراق کے لمحے شمار کرتے ہوئے
ترے فراق کے لمحے شمار کرتے ہوئے
بکھر گئے ہیں ترا انتظار کرتے ہوئے
تمہیں خبر ہی نہیں ہے کہ کوئی ٹوٹ گیا
محبتوں کو بہت پائیدار کرتے ہوئے
میں مسکراتا ہوا آئنے میں ابھروں گا
وہ رو پڑے گی اچانک سنگھار کرتے ہوئے
وہ کہہ رہی تھی سمندر نہیں ہیں آنکھیں ہیں
میں ان میں ڈوب گیا اعتبار کرتے ہوئے
بھنور جو مجھ میں پڑے ہیں وہ میں ہی جانتا ہوں
تمہارے ہجر کے دریا کو پار کرتے ہوئے
💖🎉💖🎉💖🎉——🎉❤🎉❤🎉❤
دل میں بکھرے ہوئے جالوں سے پریشان نہ ہو
دل میں بکھرے ہوئے جالوں سے پریشان نہ ہو
میرے گزرے ہوئے سالوں سے پریشان نہ ہو
میری آواز کی تلخی کو گوارہ کر لے
میرے گستاخ سوالوں سے پریشان نہ ہو
میں نے مانا تری آنکھیں نہیں کھلتی ہیں مگر
دن نکلنے دے اجالوں سے پریشان نہ ہو
اپنی زلفوں میں اترتی ہوئی چاندی کو چھپا
میرے بکھرے ہوئے بالوں سے پریشان نہ ہو
اے نئی دوست میں بھرپور ہوا ہوں تیرا
میرے ماضی کے حوالوں سے پریشان نہ ہو
دیکھ یوں دور نہ ہو مجھ کو لگا لے دل سے
تو مری روح کے چھالوں سے پریشان نہ ہو
خود کو ویران نہ کر میرے لیے جان مری
ان پریشان خیالوں سے پریشان نہ ہو
💖🎉💖🎉💖🎉——🎉❤🎉❤🎉❤
میں ہوں ترا خیال ہے اور چاند رات ہے
میں ہوں ترا خیال ہے اور چاند رات ہے
دل درد سے نڈھال ہے اور چاند رات ہے
آنکھوں میں چبھ گئیں تری یادوں کی کرچیاں
کاندھوں پہ غم کی شال ہے اور چاند رات ہے
دل توڑ کے خموش نظاروں کا کیا ملا
شبنم کا یہ سوال ہے اور چاند رات ہے
پھر تتلیاں سی اڑنے لگیں دشت خواب میں
پھر خواہش وصال ہے اور چاند رات ہے
کیمپس کی نہر پر ہے ترا ہاتھ ہاتھ میں
موسم بھی لا زوال ہے اور چاند رات ہے
ہر اک کلی نے اوڑھ لیا ماتمی لباس
ہر پھول پر ملال ہے اور چاند رات ہے
میری تو پور پور میں خوشبو سی بس گئی
اس پر ترا خیال ہے اور چاند رات ہے
چھلکا سا پڑ رہا ہے وصیؔ وحشتوں کا رنگ
ہر چیز پہ زوال ہے اور چاند رات ہے
💖🎉💖🎉💖🎉——🎉❤🎉❤🎉❤
اپنا تو چاہتوں میں یہی اک اصول ہے
اپنا تو چاہتوں میں یہی اک اصول ہے
تیرا بھلا برا ہمیں سب کچھ قبول ہے
یہ عمر بھر کا جاگنا بیکار ہی نہ جائے
تو ناں ملا تو ساری ریاضت فضول ہے
خود ہی کہا تھا تو نے مری جان چھوڑ دے
اب چھوڑ دی تو کیوں ترا چہرہ ملول ہے
اے ماں یہ میری شہرتیں میری یہ عزتیں
کچھ بھی نہیں ہے بس ترے قدموں کی دھول ہے
آئی جو تیری یاد تو آنکھیں برس پڑیں
اس وقت تیرے درد کا دل پر نزول ہے
اک دوسرے کے واسطے دونوں بنے وصیؔ
گلدان میرا دل ہے تری یاد پھول ہے
💖🎉💖🎉💖🎉——🎉❤🎉❤🎉❤
❤You Might Also Like❤
آپ کی دلچسپی کا شکریہ، اگر آپ کو ہماری پوسٹ پسند آئی ہے تو براہ کرم اسے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔ شکریہ
Best ghazal collection of Wasi Shah
اداس راتوں میں تیز کافی کی تلخیوں میں
وہ کچھ زیادہ ہی یاد آتا ہے سردیوں میں
مجھے اجازت نہیں ہے اس کو پکارنے کی
جو گونجتا ہے لہو میں سینے کی دھڑکنوں میں
Nice post
Keep it up